جھارکھنڈ کے چائیباسا کے صدر اسپتال میں بڑی لاپرواہی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہاں ایک سرکاری اسپتال میں 5 بچوں کو آلودہ خون چڑھایا گیا ، جس کے بعد یہ تمام بچے مبینہ طور پر ایچ آئی وی سے متاثر ہو گئے ۔ تمام بچے تھیلسیمیا سے متاثر بتائے جا رہے ہیں۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد ریاستی صحت کے محکمے سے لے کر انتظامیہ میں ہنگامہ برپا ہو گیا ۔اور انتظامیہ پر سنگین سوال اٹھ رہے ہیں۔
پہلا معاملہ کب سامنے آیا؟
نیوز بائٹس کے مطابق علاقے میں اس طرح کا پہلا معاملہ 18 اکتوبر کو سامنے آیا جب ایک بچے کی ایچ آئی وی رپورٹ پازیٹو آئی۔ تھیلسیمیا سے متاثرہ اس بچے کو 13 ستمبر کو خون چڑھایا گیا تھا۔ بچے کے والدین کا کہنا ہے کہ رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد انہوں نے بھی اپنی جانچ کرائی، جو نیگیٹو رہی۔ اس کے بعد انہوں نے بلڈ بینک کے ایک ٹیکنیشن کے خلاف لاپرواہی کا الزام لگاتے ہوئے شکایت درج کرائی۔
متاثرہ بچوں کی تعداد 5 ہو گئی:
میڈیا میں خبریں شائع ہونے کے بعد جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ اس کے بعد صحت خدمات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر دنیش کمار کی سربراہی میں جھارکھنڈ اسٹیٹ ایڈز کنٹرول سوسائٹی کی ایک ٹیم نے 25 اکتوبر کو چائیباسا کا دورہ کیا۔ اس دوران تحقیقات میں مبینہ طور پر مزید 4 بچوں کے ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی، جس کے بعد متاثرہ بچوں کی کل تعداد 5 ہو گئی۔ اب انتظامیہ پورے معاملے کی تحقیقات میں مصروف ہے۔
تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی تھی:
رانچی سے پانچ رکنی میڈیکل ٹیم اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ہفتہ کو چائیباسا پہنچی تھی۔تحقیقات میں سامنے آیا کہ تمام بچے تھیلسیمیا سے متاثر تھے اور انہیں چائیباسا صدر اسپتال کے بلڈ بینک سے خون چڑھایا گیا تھا۔ٹیم کی قیادت کر رہے جھارکھنڈ ہیلتھ سروسز ڈائریکٹر ڈاکٹر دنیش کمار نے کہا کہ ،ٹیم نے صدر اسپتال کے بلڈ بینک اور بچوں کے آئی سی یو وارڈ کا معائنہ کیا اور علاج کے لیے آنے والے مریضوں سے بھی بات چیت کی۔
ابتدائی تحقیقات میں بلڈ سیمپل ٹیسٹنگ، ریکارڈ کیپنگ اور سیفٹی پروٹوکول میں سنگین لاپرواہی کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ ان بے ضابطگیوں کی رپورٹ صحت کے محکمے کو سونپ دی گئی ہے۔ ضلعی سول سرجن ڈاکٹر سوشانتو کمار ماجھی نے کہا، انفیکشن کیسے پھیلا، اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ کہنا جلد بازی ہوگا کہ انفیکشن صرف خون چڑھانے سے ہوا ہے۔ ایچ آئی وی انفیکشن آلودہ سوئی یا دیگر وجوہات سے بھی ہو سکتا ہے۔