بہار اسمبلی انتخابات سے قبل مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے ایک متنازعہ بیان دیا ہے۔ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کو ’’نمک حرام‘‘ کہا۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت سماج کے ہر طبقے کے لیے کام کرتی ہے، لیکن مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے۔جو کسی کی مہربانی کو تسلیم نہ کرے وہ نمک حرام ہے۔اور ہمیں نمک حراموں کا ووٹ نہیں چاہیے۔
VIDEO | Bihar: “Muslims take benefits of all Central schemes but don't vote for us”, says Union Minister Giriraj Singh (@girirajsinghbjp) at poll rally in Arwal.#BiharElection2025 #BiharElectionsWithPTI
— Press Trust of India (@PTI_News) October 18, 2025
(Full video available on PTI Videos - https://t.co/n147TvrpG7) pic.twitter.com/syYxQR80IS
بی جے پی کو ووٹ نہ دینے پر مسلمان نمک حرام کیسے؟
خیال رہے کہ بی جے پی وہ پارٹی ہے،جو مشہور ہے کہ وہ مسلم نمائندوں کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ نہیں دیتے ہیں۔کیوں کہ پارٹی کی جیت کے منصوبہ میں ہی ہندو اور مسلم کی تفریق شامل ہے۔ بی جے پی کی اعلی قیادت سے لیکر ادنی کارکن تک مسلم مخالف نعرے بلند کرتے نظر آتے رہے ہیں، کبھی مسلموں کو نشانہ بنا کر 'دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو'جیسے نعرے لگائے ،تو کبھی گھس پیٹھیا،غدار سے منسوب کیا گیا۔ مگر انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔جس پارٹی میں کھلے عام مسلم مخالف نعرے اور مذہبی تفریقی نظریات کو پیدا کیا جاتا ہو ،ملک کی آئین کو کمزور کیا جاتا ہو،
ملک میں امن کی چاہ رکھنے والے مسلم برادری اس پارٹی کو ووٹ کیوں دے؟اور ووٹ دینا ہر فرد ہر برادری کا آئینی حق ہے،کون کسے ووٹ دےگا،کسے نہیں،یہ فرد پر منحصر ہے۔ کوئی کسی کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
پی جے پی اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور امتیازی سلوک کے اہم پہلو:
ملک کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی،جب گجرات کے وزیر اعلی تھے،اس وقت 2002 میں فسادات ہوئے،جس میں 790 سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے اور 2 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ مسلم خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔جسکے بعد اس وقت کے بی جے پی حکومت پر تشدد کی حمایت اور اسے روکنے میں ناکامی کے الزام لگے۔
2019 میں مسلم مخالف قانون جب CAA کی شکل میں لایا گیا، جو کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو شہریت دیتا ہے، اور مسلمانوں کو خارج کرتا ہے۔ جس سے مسلمانوں میں یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر این آرسی میں مسلمان خود کو شہری ثابت کرنے سے ناکام ہو گئے،تو سی اے اے کے تحت غیر مسلموں کو تو شہریت مل جائے گی مگر انکا کیا ہوگا۔وہ اپنے ہی ملک سے بے دخل کر دیے جائیں گے۔
جسکے خلاف 2020 میں ملک گیر احتجاج ہوئے اور دہلی میں 53 افراد (اکثر مسلمان) ہلاک ہوئے۔
دہلی پولیس نے اس فساد کو منسوبہ بندی سازش کے طور پر قرار دیتے ہوئے عمر خالد سمیت دیگر مسلمانوں کو جیل میں ڈال دی۔
لیکن اسی دوران جب اس قانون کے خلاف احتجاج جاری تھے کئی بی جے پی لیڈر کپل مشرا سمیت دیگر ہندو مذہبی افراد نے متنازع پوسٹ اور بیان دیے لیکن انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
گائے تحفظ کے نام پر تشدد:
بی جے پی کے دور اقتدار میں آنے کے بعد سے گائے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق2015-2018 کے درمیان، مختلف ریاستوں میں 44 افراد (اکثر مسلمان) سے زائد گائے ذبح کے الزام میں ہلاک ہوئے۔
بلڈوزر ایکشن اور سماجی، معاشی و مذہبی امتیازی سلوک:
بی جے پی ریاستی حکومت میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ،جب کسی مسلم شخص پر کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو سب سے پہلے،انکے املاک کو بلڈوز کر دیا جا تا ہے۔حالیہ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں، جو ان باتوں کی گواہی ہے۔جن میں سنبھل،بریلی میں ہوئے فسادات اور دیگر واقعات شامل ہیں۔
دو نظریہ کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف جہاں فتح پور مقبرہ پر ہندو تنظیم سے وابستہ افراد حملہ آور ہوتے ہیں،مقبرہ پر توڑ پھوڑ کرتے ہیں،امن کو نقصان پہنچاتے ہیں انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔وہیں دوسری طرف جب مسلمان اپنے نبی کی محبت 'آئی لو محمد' پوسٹر کے ساتھ احتجاج کرتے ہیں تو انکے خلاف کاروائی ہو جاتی ہے۔
جسکے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ،ایسے میں مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں دے؟اور یہ ملک ہر ایک فرد ،ہر مذہب اور ہر برادری کے لوگوں کا ہے۔جہاں جمہوری نظام کے ساتھ آئینی حکومت ہے،نہ کے فرد واحد کا ہے۔ حکومتی پولیسی سے استفادہ حاصل کرنے کا حق ملک کا آئین دیتا ہے۔ نہ کے عہدے پر فائز کوئی حکمراں۔ اور یہ ملک جمہوری نظام پر قائم ہے،جہاں ہر کسی کی شمولیت شامل ہے۔