اتراکھنڈ میں حالیہ دنوں ہندو وادی تنظیموں کی جانب سے اسکولوں میں مبینہ طور پر کلمہ پڑھوانے کو لے کر ہنگامہ کیا گیا اور زبردست مخالفت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ ادھر، اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی پشکر سنگھ دھامی حکومت نے ایک متنازعہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کی خبر سامنے آتے ہی اقلیتی برادری کے لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔
دراصل، دھامی حکومت نے اب اتراکھنڈکے تمام اسکولوں میں بھگود گیتا کو نصاب میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ دنوں ادھم سنگھ نگر کے ایک پرائیویٹ اسکول میں محض کلمہ پڑھنے کو لے کر ہندو وادی تنظیموں نے خوب ہنگامہ کیا تھا۔ جس کے بعد انتظامیہ نے محکمانہ سطح پر کاروائی کی تھی۔ تاہم، بعد میں اسکول کے پرنسپل گریش چندر سینی نے معافی مانگی تھی۔
سی ایم دھامی نے اسکولوں میں گیتا پاتھ کیا لازمی:
اتراکھنڈکے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے اتوار کو اعلان کیا کہ ریاستی تمام اسکولوں میں اب بھگود گیتا کے شلوکوں کا پاتھ لازمی کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے مطابق، اس فیصلے کا مقصد طلبہ کو بھارتی ثقافت، اخلاقی اقدار اور زندگی کے فلسفے سے جوڑنا ہے، تاکہ ان کا جامع ترقی یقینی بنائی جا سکے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر کیے گئے ایک پوسٹ میں وزیر اعلیٰ دھامی نے کہا کہ ان کی حکومت نے اسکولوں میں گیتا کے شلوکوں کا پاتھ لازمی کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ اقدام بچوں کو بھارتی ثقافت، اخلاقی اقدار اور زندگی کے فلسفے سے جوڑتے ہوئے ان کی شخصیت کے جامع ترقی کا راستہ ہموار کرے گا۔ وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ گیتا کی تعلیمات طلبہ میں خود اعتمادی، فرض شناسی اور مثبت سوچ پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
کلمہ پڑھنے پر تنازعہ تو اب بھگود گیتا پر زور کیوں؟
ادھر، اب وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے فیصلے کو لے کر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے سی ایم دھامی کے اس فیصلے کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے مسلم برادری کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی مہینے ادھم سنگھ نگر کے ایک پرائیویٹ اسکول میں صبح کی پرارتھنا سبا میں مسلم بچوں کے کلمہ پڑھنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہندو تنظیموں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔
یہ اسکول ادھم سنگھ نگر ضلع کے باجپور علاقے کے سلطانپور پٹی میں واقع ہے۔ بچوں کے کلمہ پڑھنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ ویڈیو میں بچوں کو کلمہ پڑھتے دیکھ ہندو تنظیموں آگ بگولہ ہو گئیں۔ ہندووادی تنظیموں نے سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور مدرسہ جیسی تربیت قرار دیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، وشو ہندو پریشد سمیت دیگر تنظیموں نے اسکول کے باہر مظاہرہ کیا اور ایس ڈی ایم کو میمورنڈم دے کر کاروائی کا مطالبہ کیا۔ اسکول کے پرنسپل گریش چندر سینی نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگی اور کلمہ پڑھانا فوری طور پر بند کر دیا۔ پرنسپل نے بتایا تھا کہ اسکول میں 110 ہندو بچے ہیں، جبکہ 80 سے زیادہ بچے مسلم برادری کے پڑھتے ہیں۔ ان کی نیت کسی کی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نہیں، بلکہ بچوں میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں سمجھ پیدا کرنا مقصد تھا۔