• News
  • »
  • قومی
  • »
  • ڈاکٹر منموہن سنگھ پارلیمنٹ میں اشعار کے ذریعہ اپوزیشن کا جواب دیتے تھے

ڈاکٹر منموہن سنگھ پارلیمنٹ میں اشعار کے ذریعہ اپوزیشن کا جواب دیتے تھے

Reported By: | Edited By: Mohd Muddassir | Last Updated: Dec 27, 2024 IST

image
آنجہانی سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ابتدائی تعلیم اردو میدیم سے تھی۔ ان کی تعلیم کا آغاز ہی اردو میڈیم سے ہوا، اسی لیے وہ اردو اچھی طرح پڑھ اور لکھ سکتے تھے۔ اردو رسم الخط کے علاوہ وہ پنجابی زبان کی گورمکھی رسم الخط میں بھی لکھتے تھے۔ منموہن سنگھ انگریزی میں بھی ماہر تھے اور انہوں نے انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی تھیں۔ ان کے بارے یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تقریر اردو زبان میں لکھ کر پڑھتے تھے۔ انکو اردو زبان میں کافی دلچسپی تھی۔ آنجہانی سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنے خیالات کو کم الفاظ میں بیان کرنے کے لیے مہشور تھے۔ پارلیمنٹ میں دوسرے ممبران پارلیمنٹ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے لمبی لمبی تقریریں کرتے تھے لیکن منموہن سنگھ اپنے خیالات کا اظہار نہایت مختصر الفاظ میں کرتے تھے اور وہ اکثر شعر و شاعری کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
 
 
یہ 15ویں لوک سبھا کی بات ہے، جب کانگریس اقتدار میں تھی اور بی جے پی اپوزیشن میں تھی، اس دوران پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اکثر لفظی جنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔ سشما سوراج اور اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان ہونے والی شاعری کی بحث لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ 15ویں لوک سبھا میں بحث کے دوران سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے یہ شعر پڑھا کہ ''ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے''۔ اس کے جواب میں سشما سوراج نے کہا کہ شعر کا جواب دوسرے شعر سے نہ دیا جائے تو قرضہ رہے گا۔ اس کے بعد انہوں نے بشیر بدر کا مشہور مصرعہ پڑھا کہ ’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی، یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا‘‘ اس کے بعد سشما نے ایک اور شعر بھی پڑھا ’’ تمہیں وفا یاد نہیں ہے، ہمیں جفا یاد نہیں، زندگی اور موت کے دو ہی ترانے ہیں ایک تمہیں یاد نہیں، ایک ہمیں یاد نہیں۔ سشما سوراج کے اس شعر کے بعد ایوان میں موجود اراکین اپنی ہنسی نہ روک سکے۔
 
ہم ان سے وفاداری کی امید رکھتے ہیں جو نہیں جانتے کہ وفاداری کیا ہوتی ہے۔ کہ شیر کا جواب دوسرے شیر سے نہ دیا جائے تو قرض باقی رہے گا۔ اس کے بعد انہوں نے بشیر بدر کا مشہور مصرعہ پڑھا، ’’کوئی مجبوریاں ہوں گی، کوئی بے وفا نہیں ہوتا‘‘ اس کے بعد سشما نے ایک اور شعر بھی پڑھا، ’’تمہیں یاد نہیں، وفا ہمیں یاد نہیں‘‘۔ زندگی اور موت کے دو ہی گانے ہیں، ایک تمہیں یاد نہیں، ایک ہمیں یاد نہیں۔‘‘ سشما سوراج کے اس شعر کے بعد ایوان میں موجود اراکین اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ اسی طرح سال 2011 میں بھی پارلیمنٹ میں دونوں رہنما آمنے سامنے تھے۔ اس دوران منموہن سنگھ نے اقبال کے ایک شعر کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مانا کی تیرے دید کے قابل نہیں ہوں میں، تو میرا شوق دیکھ، میرا انتظار دیکھ ۔ اس پر سشما نے کہا تھا کہ تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر، یہ بتا کی قافلہ کیوں لُٹا، ہمیں رہزنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔
 
 
وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ اب بی جے پی کی سینئر لیڈر سشما سوراج نہیں رہیں اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی چل بسے، لیکن ایوان میں دونوں لیڈروں کے درمیان ہونے والی شعر و شاعری والی بحث کو لوگوں کو اب بھی یاد ہے اور انکو آئندہ بھی یاد رکھا جائے گا۔