سوڈانی فوج نے اپنے اتحادی مسلح گروپوں کے ہمراہ اسٹریٹجک شہر ود مدنی میں داخل ہو کر حریف ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کو شہر سے نکال دیا ہے۔ یہ کارروائی سوڈانی فوج کے لیے ایک بڑی کامیابی کی علامت ہے، جو اپریل 2023 سے RSF کے ساتھ جاری جنگ میں مصروف ہے، جس نے پورے ملک میں تباہی اور انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔
ود مدنی کی اہمیت اور جنگ کا پس منظر
ود مدنی گیزیرہ ریاست کا مرکزی شہر ہے اور اس کا جغرافیائی مقام اسٹریٹجک طور پر بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ کئی ریاستوں کو جوڑنے والی سپلائی لائنز کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ، یہ دارالحکومت خرطوم سے بھی قریبی تعلق رکھتا ہے۔ سوڈانی فوج کے مطابق، RSF نے 2023 کے دسمبر تک شہر پر قبضہ کر رکھا تھا، جس کے بعد فوج نے شہر کو "آزاد" کرانے کے لیے اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دیں۔
یہ جنگ سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان ایک بڑے فوجی تنازعہ کا نتیجہ ہے، جس کی بنیاد افواج کے انضمام پر اختلافات تھے۔ اس جنگ نے سوڈان میں قحط اور نقل مکانی کے بحران کو جنم دیا ہے، اور اقوام متحدہ نے اس بحران کو دنیا کا بدترین انسانی المیہ قرار دیا ہے۔ اب تک لاکھوں افراد اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، اور بارہ ملین سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
مقامی ردعمل اور عالمی تنقید
فوج کی کامیابی کے بعد، ود مدنی میں مقامی عوام نے جشن منایا ہے، اور جمہوریت کے حامی گروپوں نے اس پیشرفت کو RSF کے "ظلم" کے خاتمے کے طور پر سراہا ہے۔ دوسری طرف، RSF کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، اور جنگی جرائم کے الزامات دونوں طرف عائد کیے جا چکے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی سوڈانی فوج اور RSF دونوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، جن میں شہریوں کو نشانہ بنانا اور رہائشی علاقوں پر بلاامتیاز گولہ باری شامل ہیں۔ امریکی حکومت نے RSF کے رہنما محمد حمدان ڈگلو پر نسل کشی کے الزامات عائد کر کے اس پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔
اگلے اقدامات اور سوڈان کا مستقبل
فوج اور RSF کے درمیان جاری جنگ سوڈان کی سیاسی اور سماجی صورتحال کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ گیزیرہ کی ریاست پر فوج کا دوبارہ قبضہ اس جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے، تاہم جنگ کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ سوڈان کے عوام اور عالمی برادری کو اس جنگ کے اثرات کو کم کرنے اور انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔سوڈان کی جنگ کی شدت اور تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاکھوں افراد پہلے ہی اس کے اثرات سے متاثر ہو چکے ہیں، اور یہ بحران عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔