صحافیوں کی پہچان کے لیے معلومات اور محکمہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ جی ایم او نمبر 239 مؤرخہ 2016-07-15 کی درستگی کا جائزہ لیتے ہوئے تلنگانہ ہائی کورٹ نے صحافیوں کو اکریڈیٹیشن کی اجرائی میں لسانی بنیادوں پر درجہ بندی میں پائے جانے والے امتیاز کی یکسوئی کرتے ہوئے حکومت تلنگانہ کو ہدایت دی ہے کہ اندرون دو ماہ اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ پانل میں شامل سیٹلائٹ نیوز چینلس کے لئے معقول اور واجبی معیارقائم کرتے ہوئے رہنما خطوط مرتب کرے۔
بتا دیں کہ اکریڈیٹیشن کارڈس کی اجرائی میں لسانی امتیازات کے خلاف تلنگانہ اردو ورکنگ جرنلسٹس یونین‘ ہائی کورٹ سے رجوع ہوے تھے،
جس کے بعد چیف جسٹس الوک ارادھے اور جسٹس انیل کمار جوکنٹی پر مشتمل ڈیویژن بنچ اس نتیجے پر پہنچا کہ میڈیا اکریڈیٹیشن کے لئے زبان کی اساس پر معیارات کا تعین در حقیقت من مانی اور دستور ہند کے آرٹیکل 14 کے برخلاف ہے
عدالت العالیہ نے پایا کہ اکریڈیٹیشن فوائد کی فراہمی کے لئے بلا لحاظ تعداد صفحات و تعداد اشاعت اخبار کی زبان واجبی اور مناسب معیار نہیں ہوسکتی۔ عدالت نے اس کے جواز میں اس بات پر زور دیا کہ ریاستی حکومت اگر کارکرد صحافیوں کو اکریڈیٹیشن جیسی ایک فلاحی اسکیم سے بہرہ مند کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو‘ اس کو چاہئے کہ وہ بے عیب‘ معقول اور واجبی معیار پر عطا کرے۔
بنچ نے تجویز کیا کہ زبان کی بجائے بے عیب اور معقول معیار اخبار یا جریدہ کی تعداد اشاعت یا صفحات ہوسکتے ہیں۔ عدالت العالیہ نے ریاستی حکومت کی جانب سے پیش کردہ جواز پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا”مذکورہ وضاحت طمانیت سے پرے ہے۔ ایک اخبار کے زبان کی اساس پر اکریڈیٹیشن کی اجرائی کے لئے معین معیار ات کے لئے جوابی حلف میں کوئی جواز نہیں پیش کیاگیا۔
ریاستی حکومت نے اگرکارکرد صحافیوں کو ایک فلاحی اسکیم بنام اکریڈیٹیشن سے مستفید کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ بے عیب اور معقول معیار پر عطا کیا جانا چاہئے۔ بے عیب اور معقول معیار ایک اخبار کی تعداد اشاعت اور صفحات ہوسکتے ہیں تاہم بلالحاظ تعداد صفحات اور تعداد اشاعت اخبار کی زبان اکریڈیٹیشن کا فائدہ پہنچانے کے لئے واجبی اور مناسب وجوہ نہیں ہوسکتی۔
صرف اردوا خبارات اور جرائد کو اکریڈیٹیشن کارڈس کی تعداد کو محدود رکھنے کی کوئی وضاحت پیش کرنے میں مدعی علہیان بالکلیہ ناکام رہے۔“عدالت نے 2016 کے قواعد میں شیڈول ’سی‘ اور شیڈول ’ایف‘ کو برخاست کردیا جو اردو کے اخبارات اورچینلوں کے لئے تعداد اکریڈیٹیشن کا تعین کرتے تھے۔
بنچ نے نوٹ کیا کہ ریاستی حکومت اکریڈیٹیشن کی اجرائی کے لیے زبان کو معیار بنانے پر اطمینان بخش وضاحت نہیں ديے ہیں ۔حکومت نے صرف اتنا ہی کہا کہ درخواست گزار انجمن‘ اکریڈیٹیشن کمیٹی کی تشکیل کے بعد وجود میں آئی ہے اس لئے اس وقت اس کو اس کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔زبان کی اساس پر یہ امتیاز غیر واجبی اور مساوات کے اصولوں کے مغائر ہیں۔
اس پر مفتی رئیس الدین قاسمی جنرل سکریٹری تلنگانہ اردو ورکنگ جرنلسٹس یونین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ یونین کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے اس خصوص میں یونین کی نمائندگی کرنے والی وکیل صاحبہ محترمہ ولادمیر پوٹین اور معاون عدالت جناب ویویک جین کے علاوہ سرپرست یونین محمد ساجد معراج‘ سابق صدر یونین اطہر معین اور موجودہ صدر محمد شجاع الدین افتخاری سے خوشی کور شکریہ ادا کیا جن کی کاوشوں کے باعث یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
مفتی رئیس الدین قاسمی نے کہا کہ اس خصوص میں ہماری یونین نے اس وقت کے کمشنر اطلاعات و تعلقات عامہ اور حکومت سے متعدد بارنمائندگی کی تھی مگر بارآور ثابت نہ ہونے پر اردو صحافیوں کو عدل دلانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔
مزید انہوں نے کہا کہ ہمارا یہی ادعا تھا کہ آیا صرف زبان کی اساس پر ریاستی حکومت میڈیا اکریڈیٹیشن کارڈس کی تعداد کا تعین کیسے کرسکتی ہے؟ ہماری یونین نے اردو صحافتی اداروں اور صحافیوں کے ساتھ روا ناانصافی پر مبنی اس جانبدارانہ تخصیص کوکامیابی سے چالینج کیا۔ ہمارا استدلال تھا کہ اردو زبان کے صحافیوں کے ساتھ امتیاز روا رکھا گیا اور انہیں اپنے تلگو ہم منصب کے مقابل کم تعداد میں اکریڈیٹیشن کارڈس مختص کئے گئے۔