• News
  • »
  • عالمی منظر
  • »
  • جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول بغاوت کے الزام میں گرفتار، مارشل لاء کی کوشش پر تفتیش شروع

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول بغاوت کے الزام میں گرفتار، مارشل لاء کی کوشش پر تفتیش شروع

Reported By: | Edited By: Shahbaz | Last Updated: Jan 15, 2025 IST

image
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کو ملک کی قومی اسمبلی کی جانب سے مواخذے کے اقدام کے بعد  انہیں بغاوت کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تفتیش کاروں نے صدر یون کے خلاف ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کی کوشش کرنے کے حوالے سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ 
 
جنوبی کوریا کے حکام نے بدھ کے روز بتایا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ہیڈکوارٹر نے صدر یون سک یول کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ پر عملدرآمد کیا اور انہیں 15 جنوری کو صبح 10:33 بجے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد صدر یون نے اپنی ناکام مارشل لاء کو "خونریزی" روکنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ وہ بدعنوانی کے تحقیقاتی دفتر کو جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
 
یون نے کہا کہ وہ تحقیقات کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ تفتیش کاروں اور پولیس نے یون کی گرفتاری کے دوران رہائش گاہ میں چڑھنے کے لیے سیڑھیوں کا استعمال کیا، کیونکہ صدارتی سیکیورٹی سروس نے اس عمل کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، ہزاروں افراد یون کے حامیوں سمیت اس کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئے تھے، اور یون کے وکلاء اور حکومتی قانون سازوں نے اس گرفتاری کو روکنے کی کوشش کی۔
 
گرفتاری کے بعد یون کو پولیس کی نگرانی میں شہر گواچیون میں بدعنوانی کے تحقیقات کے دفتر منتقل کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر یون کی رہائش گاہ پر گرفتاری کی کارروائی میں تقریباً 1000 پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا۔ یہ گرفتاری یون کے مواخذے کے مقدمے کی سماعت کے دوران ہوئی، جب وہ عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہے تھے۔
 
یون کی گرفتاری کے بعد تفتیشی اداروں کو قانون کے تحت انہیں زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ صدر یون کے خلاف مزید قانونی کارروائی کی جائے یا نہیں۔ 
 
یون کے وکلاء نے اس گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا اور کہا کہ انہیں اپنے موقف کا آزادانہ طور پر دفاع کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ یون کا یہ اقدام 3 دسمبر 2024 کو رات گئے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سامنے آیا، جس پر 14 دسمبر کو جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی نے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔یہ واقعہ جنوبی کوریا کی سیاست میں ایک سنگین موڑ ہے اور ملک میں سیاسی بے چینی کی نئی لہر کو جنم دے رہا ہے۔ تفتیشی کارروائی اور صدر کی گرفتاری کے ساتھ، ملک میں حکومت کے خلاف عوامی ردعمل میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔