روہنگیا مسلمالوں کے تعلق سے ایک بار پھر دردناک خبر سامنے آئی ہے۔میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش جا رہے روہنگیا مسلمانوں پر ساحل کنارے ڈرون کے ذریعے حملہ کیا گیا۔ جس میں خواتین، بوڑھے،بچے سمیت کئی خاندان ہلاک ہوگۓ۔
بتا دیں کہ میانمار میں ایک بار پھر روہنگیا مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، جس کے باعث وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران ملک سے بھاگ کر بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں پر ڈرون کے ذریعہ حملہ ہوا۔ جس میں کم از کم 200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس حملے میں ایک حاملہ خاتون اور اس کی 2 سالہ بیٹی کی بھی موت ہو گئی ہے،
ایک زندہ بچ جانے والے عینی شاہد نے بتایا کہ اس حملہ میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں،
یہ حملہ اس وقت ہوا جب کچھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل علاقے میں ایک تالاب کے قریب کشتی کا انتظار کر رہے تھے۔ لوگ بچنے کے لیے سیدھا دریا میں کود گئے۔
جمعہ 9 اگست کو بین الاقوامی طبی امدادی گروپ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز،کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ہوۓ حملوں کے بعد ان کا علاج کر رہے ہیں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جن کا علاج جاری ہے وہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سرحد پار کر کے بنگلہ دیش جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں،
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
در اصل روہنگیا مسلمان 16 ویں صدی سے ریاست راکھین میں آباد ہیں، جسے اراکان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب میانمار میں برطانوی راج تھا۔ 1826 میں جب پہلی اینگلو برمی جنگ ختم ہوئی تو اراکان پر برطانوی حکومت قائم ہو گئی۔
اس دوران انگریز حکمرانوں نے بنگلہ دیش سے مزدوروں کو اراکان لانا شروع کیا۔ اس طرح ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے میانمار کے راکھین آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا یہ وہی لوگ تھے جو بنگلہ دیش سے راکھین میں آباد ہوئے اور آج روہنگیا مسلمان کہلاتے ہیں۔ روہنگیا کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر میانمار کی جنرل نے ون کی حکومت نے 1982 میں برما کے قومی قانون کو نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت روہنگیا مسلمانوں کی شہریت ختم کر دی گئی۔ تب سے یہ روہنگیا مسلمان کئی ممالک میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔