اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے جنگ بندی معاہدے کو منظور ی دی ہے ۔ اب یہ تجویز منظوری کے لیے مکمل کابینہ کے پاس بھیجی جائے گی ۔اس معاہدے پراتوار سے عمل درآمد کیا جائے گا ۔اسے اسرائیلی ہائی کورٹ کی منظوری ملنا باقی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے اسپشل ٹاسک فورس کو کہا ہے کہ غزہ وے واپس آرہے وہ یرغمالیوں کو لینے کو تیار رہیں۔دراصل یرغمالیوں کو ملک واپس لانے کے لیے نیتن یاہو کو شدید گھریلو دباؤ کا سامنا ہے ، یرغمالیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی رہائی کو سیاست پر ترجیح دیں ۔اسرائیل میں انتہا پسند دھڑے چاہتے ہیں کہ جنگ بندی نہ ہو۔
نیتن یاہوکاجھکاؤانتہائی دائیں بازو کے ارکان کی مخالفت کے ساتھ تھا،لیکن اُنہیں امن معاہدے کے رضامندی کرنی پڑی ہے ۔
حماس تنظیم پہلے 42 دنوں میں 33 یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔جبکہ اسرائیل رہائی پانے والی ہر خاتون اسرائیلی فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا ۔اور ہر ایک غیر فوجی خاتون کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ یرغمالیوں کے نام اُنہیں اسرائیل ڈیفنس فورسز کے حوالے کرنے کے بعد ہی ظاہر کیے جائیں گے، ۔۔جبکہ رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی فہرستیں اسرائیلی میڈیا میں پہلے ہی گردش کر رہی ہیں۔
دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میںسو افراد سے زیادہ مارے جاچکے ہیں۔اسرائیلی جنگی جہازوں سے گرائے جارہے بموں کے دھماکوں کے نتیجے میں مرنے والوں میں سب سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔ جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں رُک سکتی ہیں۔لیکن تنازع جوں کا توں برقرار رہے گا۔اور پہلا بڑا چیلنج یہ ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے ۔ایسا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 42دنوں کے پہلے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔
یادر ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ بلآخرجنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کی رہائی پر راضی ہو گیا ہے۔محصور علاقے میں 15 ماہ کے قتل عام کے بعد قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی نے بدھ کے روز باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ حماس اور اسرائیلی مذاکرات کاروں کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ معاہدہ 19 جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو گا ۔ اور تین مرحلوں میں امن قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔
اس کے علاوہ قطر۔ مصر اور امریکہ نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کیا ہے کہ تینوں مراحل کی پیروی کی جائے اور معاہدے پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ ان ممالک نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس عمل کو کامیاب بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔یہ معاہدہ امریکہ کی حمایت سے مصری اور قطری ثالثوں کے کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد ہوا ہے۔ دریں اثنا، نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔