Friday, October 18, 2024 | 1446 ربيع الثاني 15
National

وقف ترمیمی بل، در اصل بورڈ کے املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے،حکومت بل کو واپس لے،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف گزشتہ کل 22 اگست آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علماء ہند سمیت مختلف مسلم تنظیموں نے مشترکہ طور پرپریس کانفرنس کی جہاں  اس بل کی مخالفت میں وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش قرار دیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو واپس لے۔
وقف ترمیمی بل کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ وقف ترمیمی بل میں نہ صرف وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔
یہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔
ساتھ ہی ایسی مساجد، مدرسے، درگاہیں اور قبرستان چاہے وہ صدیوں سے استعمال میں رہے ہوں لیکن ملک کے ریوینو ریکارڈ میں اگر ان کا اندراج نہ ہو تو ان پر مقدمات، تنازعات اور غیر قانونی قبضوں کا راستہ صاف ہو جائے گا۔
جہاں ایک طرف مجوزہ بل میں غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی تجویز ہے، وہیں یہ بل غیر مسلموں کے ذریعہ اپنی کسی جائیداد کو وقف کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں جو انہوں نے مذہبی اور خیراتی کاموں کے لیے راہ خداوندی میں پیش کی ہیں۔ وقف بورڈ اور متولیوں کا رول انہیں صرف ریگولیٹ کرنے کا ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے این ڈی اے میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں اور حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو ہرگز ہرگز پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔