غزہ سے چھ اسرائیلی یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد سے اسرائیل میں حکومت کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاج پھوٹ پڑا ہے۔
اتوار کی رات سے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے باقی بچے ہوئے یرغمالیوں کی واپسی کے لیے جلد سے جلد حماس کے ساتھ جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو حکومت کے خلاف جاری اس مظاہرے کی متعدد تنظیموں اور یونین نے حمایت کرتے ہوئے اپنی خدمات ایک دن کے لیے مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل کی سب سے بڑی اور طاقتور ٹریڈ یونین، ہسٹادرٹ نے آج کے دن یعنی 2 ستمبر پیر کو عام ہڑتال کا اعلان کرکے حکومت پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس ٹریڈ یونین نے بینکنگ، صحت اور ملک کے مرکزی ہوائی اڈے سمیت معیشت کے بڑے شعبوں کو وقتی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ حکومت کو جنگ بندی معاہدے کے لیے مجبور کیا جا سکے
ٹریڈ یونین کے سربراہ کا کہنا ہے کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اب صرف ہماری ہی مداخلت ان لوگوں کو جھنجھوڑ سکتی ہے جنہیں جھنجھوڑے جانے کی ضرورت ہے، آج سے سے پورے اسرائیل کی معیشت ہڑتال پر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مغویوں کی رہائی کا معاہدہ سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں ہورہا اور یہ ناقابل قبول ہے، اس وقت معاہدہ ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے لیکن ہمیں معاہدے کی جگہ لاشیں مل رہی ہیں۔
غزہ میں 11 مہینوں سے جاری جنگ کے دوران اسرائیل میں یہ اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔ مظاہرین کے مطابق ممکنہ طور پر وہ اب ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کی پالیسوں کی وجہ سے اسرائیلی عوام فی الوقت مشکلات میں گھرے ہوۓ ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ سے چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ تمام چھ یرغمالیوں کو اسرائیلی فورسز کے پہنچنے سے کچھ دیر قبل ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جب کہ حماس کا دعویٰ ہے کہ یہ یرغمالی اسرائیلی فوج کی بمباری میں ہلاک ہوئے۔