آسام کے بارپیٹا میں گزشتہ کل 3 ستمبر منگل کو 28 مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور غیر ملکی قرار دیتے ہوۓ پولیس نے ڈیٹینشن کیمپ بھیج دیا۔ جس میں 9 خواتین اور 19 مرد شامل تھے،
اس منظر کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں لوگوں کے ایک دوسرے سے بچھڑنے کا جذباتی ماحول دیکھا جا سکتا ہے جہاں لوگ اپنی بے بسی کے عالم میں چینخ اور چلا رہے ہیں،ان کے گھر والے اور رشتہ داروں کا رو رو کر برا حال ہے،پولیس جبرا ایک بس میں ان مسلمانوں کو سوار کرتی ہے اور انہیں لے کر روانہ ہو جاتی ہے۔
بارپیٹا پولیس کی قیادت میں کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں ان افراد کو گولپارہ ضلع کے مٹیا میں واقع حراستی کیمپ میں منتقل کیا گیا ہے۔
جس میں حراست میں لیے گئے 28 افراد میں 9 خواتین اور 19 مرد شامل ہیں، تمام کا تعلق بارپیٹا ضلع کے مختلف علاقوں سے تھا۔
ساتھ ہی بتاتے چلیں کہ آسام میں این آرسی لاگو ہے اور این آر سی سے باہر رہ جانے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ہندو بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان ہندوؤں کو بچانے کا ایک حل تلاش کر لیا۔ جو مسلمان ہیں انھیں بی جے پی “گھس پیٹھیا” کہتی ہے اور جو ہندو ہیں انہیں “شررنارتھی” یعنی رفیوجی۔ گھس پیٹھیوں کو پارٹی ملک بدر کرنا چاہتی ہے جبکہ شررنارتھیوں کو شہریت سے نوازنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لئے مرکزی حکومت نے 2016 میں ایک بل پیش کیا اور 2018 میں اسے لوک سبھا سے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔