Sunday, September 8, 2024 | 1446 ربيع الأول 05
National

سپریم کورٹ نے رحیم کو بھارتی شہری قرار دیا، لیکن انکی موت ڈھائی سال قبل ہی ہو چکی ہے

تقریباً 12 سال تک قانونی جنگ لڑنے کے بعد آسام کے رہائشی رحیم علی کو سپریم کورٹ نے بھارتی شہری قرار دے دیا ہے۔ مگر اسکے بعد یہ معلومات سامنے آئی ہے کہ رحیم کا انتقال تقریباً ڈھائی سال قبل ہی ہو گیا ہے۔
رحیم کی اہلیہ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر کہا کہ اب ان سب کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ 2012 سے مسلسل شہریت کے لیے لڑتے ہوئے انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا،وہ پورے تین ماہ تک گھر میں سونا چھوڑ دیے تھے، انہیں ڈر تھا کہ رات میں پولیس آئے گی اور انہیں لے جائے گی ، اس لیے وہ ہر رات خاموشی سے باہر نکل جاتے تھے۔ 
 بتا دیں کہ رحیم کو ریاست میں ٹریبونل کی جانب سے غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 11 جولائی کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں انہیں ہندوستانی شہری قرار دیا ہے۔
 رحیم علی  58 سال کی عمر میں غیر ملکی بنگلہ دیشی منسوبیت کے ساتھ انتقال کر گئے ہیں ۔ مگر اب وہ اپنی موت کے بعد بنگلہ دیشی نہیں، بلکہ ہندوستانی ہیں،  
رحیم آسام کے نلباری ضلع کے کاشم پور گاؤں کا رہنے والا تھا۔
2012 میں فارنرز ٹربیونل نے اس معاملے میں ایک فریقی حکم دیتے ہوئے انہیں غیر ملکی قرار دیا تھا۔ کیونکہ رحیم ٹریبونل کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ ٹریبونل نے کہا تھا کہ وہ فارنرز ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ رحیم نے اس حکم کو گوہاٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جہاں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بیماری کی وجہ سے وہ ٹریبونل کے سامنے پیش نہیں ہوسکے تھے۔ لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔
اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ نے 2017 میں کیس کو واپس فارنرز ٹریبونل کے حوالے کر دیا۔ اور اسے دوبارہ فیصلہ کرنے کو کہا کہ رحیم غیر ملکی شہری ہے یا نہیں۔ اس بار بھی ٹربیونل نے انہیں غیر ملکی ہی قرار دیا۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کی بعض دستاویزات میں املاء اور تاریخ لکھنے میں غلطیاں ہوئی تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں رحیم علی کی نمائندگی وکیل کوشک چودھری کر رہے تھے۔ یہ مقدمہ انہیں نچلی عدالت کے وکیل نے دیا تھا۔ چودھری نے کہا کہ مجھے رحیم علی کی موت کا علم نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے اس تعلق سے کوئی اطلاع اس وقت ملتی جب خاندان یا ریاست اسے اس کے بارے میں جانکاری دیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملے سے جڑے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔