اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہنگامہ واقع ہوا ہے۔ الزام ہے کہ جامع مسجد کے سروے کے دوران کسی نے پتھر پھینکا۔ اس کے بعد پولیس نے بھیڑ پر آنسو گیس کے گولے پھینکے اور انہیں منتشر کر دیا۔ ہنگامہ آرائی کے بعد ڈی ایم اور ایس پی سمیت بڑی تعداد میں پولیس موقع پر تعینات ہے۔ علاقے میں صورتحال تشویشناک ہے۔ پولیس نے موقع سے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔
معاملہ کیا ہے؟
دراصل ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ سنبھل میں مندر کو گرا کر جامع مسجد بنائی گئی ہے۔ پہلے یہاں ہری ہر مندر تھا۔ اس معاملے میں آج مسجد کا سروے کیا جا رہا تھا۔ عدالت کی درخواست پر ایڈووکیٹ کمشنر سروے کے لیے پہنچے تھے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس دوران مسجد کے قریب ایک ہجوم جمع ہو کر سروے پر اعتراض کیا۔ اہلکاروں نے ہجوم کو منانے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس کے بعد پولیس نے بھیڑ پر آنسو گیس کے گولے داغے اور کچھ لوگوں کو حراست میں لے لیا۔
ہندو فریق نے 19 نومبر کو ضلعی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
اس کے بعد عدالت نے مسجد کا سروے کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔ پہلا سروے 19 نومبر کو کیا گیا اور دوسرا سروے آج۔
انتظامیہ کو سروے رپورٹ 26 نومبر کو پیش کرنی ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔
ساتھ ہی بتا دیں کہ سنبھل جامع مسجد کے وکیل ظفر علی کے مطابق، "یہ مسجد میر بیگ نے مغل حکمران بابر کے حکم پر 1529 میں بنوائی تھی، یہ مسجد ہموار زمین پر بنائی گئی ہے، اس کے شواہد موجود ہیں، اسے کسی نے منہدم کر کے نہیں بنایا تھا۔ ہم اپنا موقف مضبوطی سے پیش کریں گے اور جامع مسجد وہیں رہے گی، کیونکہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت ہے۔ ہندو فریق کے پاس کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔