24 نومبر اتوار کو شاہی جامع مسجد کا دورہ کرنے والی سروے ٹیم کے خلاف احتجاج کر رہے مسلمانوں کے خلاف یوپی پولیس نے سخت کارروائی کی اس دوران مبینہ طور پر اتر پردیش پولیس نے فائرنگ کی جس میں تین مسلم نوجوانوں کی موت ہو گئی ۔
سروے ٹیم کا یہ دورہ ہندو فریق کی شکایت پر مبنی عدالتی حکم کے بعد ہوا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مغلوں نے تاریخی مسجد کی تعمیر کے لیے ایک مندر کو منہدم کیا تھا۔
ہلاک ہونے والوں کی شناخت نوید، نعیم اور محمد بلال انصاری کے طور پر ہوئی ہے۔
جائے وقوعہ سے ملنے والی تصویروں میں ہندوفریق سروے ٹیم کے ساتھ
ہندوتوا گروپ کے ارکان بھی تھے جو "جئے شری رام" کے نعرے لگاتے ہوئے دکھے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
دراصل ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ سنبھل میں مندر کو گرا کر جامع مسجد بنائی گئی ہے۔ پہلے یہاں ہری ہر مندر تھا۔ اس معاملے میں آج مسجد کا سروے کیا جا رہا تھا۔ عدالت کی درخواست پر ایڈووکیٹ کمشنر سروے کے لیے پہنچے تھے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس دوران مسجد کے قریب ایک ہجوم جمع ہو کر سروے پر اعتراض کیا۔ اہلکاروں نے ہجوم کو منانے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس کے بعد پولیس نے بھیڑ پر آنسو گیس کے گولے داغے اور کچھ لوگوں کو حراست میں لے لیا۔
ہندو فریق نے 19 نومبر کو ضلعی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
اس کے بعد عدالت نے مسجد کا سروے کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔ پہلا سروے 19 نومبر کو کیا گیا اور دوسرا سروے آج۔
انتظامیہ کو سروے رپورٹ 26 نومبر کو پیش کرنی ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔
ساتھ ہی بتا دیں کہ سنبھل جامع مسجد کے وکیل ظفر علی کے مطابق، "یہ مسجد میر بیگ نے مغل حکمران بابر کے حکم پر 1529 میں بنوائی تھی، یہ مسجد ہموار زمین پر بنائی گئی ہے، اس کے شواہد موجود ہیں، اسے کسی نے منہدم کر کے نہیں بنایا تھا۔ ہم اپنا موقف مضبوطی سے پیش کریں گے اور جامع مسجد وہیں رہے گی، کیونکہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت ہے۔ ہندو فریق کے پاس کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔