مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج عروج پر ہے، یونیور سٹی میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کر دی گئی ہے۔
احتجاج کر رہے طلبہ کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنا ہمارا حق ہے، یہاں اتنی بڑی تعداد میں پولیس تعینات کی گئی ہے، جیسے یہاں غنڈے پڑھ رہے ہوں۔ یہاں کوئی غنڈے نہیں ہیں ریسرچ اسکالر، یو جی اور پی جی کے طلبہ پڑھتے ہیں۔
بتا دیں کہ یونیورسٹی میں بڑھتی بد انتظامی اور بد اخلاقیات سے پریشان ہو کر طلبہ بڑی تعداد میں یونیورسٹی ایڈ منسٹریٹر اور وائس چانسلر کا گھیراؤ کیا اور کیمپس پراکٹر کے ممبر کے ساتھ ہاسٹل کے پرووسٹ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
وائس چانسلر کی جانب سے طلبہ کو منانے کی کوشش کی گئی لیکن بات نہ بنی تو ہاسٹل کے پرووسٹ یوسف خان کو تقریباً 8 گھنٹے کے احتجاج کے بعد استعفیٰ دینا پڑا۔
معاملہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب پراکٹر کے استعفی کی مانگ اٹھی،
الزام ہے کہ پراکٹر ٹیم کے محمد عظیم نے طلباء سے کھانے کے معاملے پر قابل اعتراض باتیں کہیں،
طلبہ نے پروکٹر سے کہا کہ کھانے میں کیڑا نکلتا ہے کھانے سے بدبو آتی ہے تو ان کا جواب یہ تھا کہ آپ باہر ہوٹل سے کیڑا والا کھانا کھا سکتے ہیں کتے والا کھانا کھا سکتے ہیں تو پھر یہ کیڑا والا کھانا کیوں نہیں کھا سکتے ہیں یہ غریب بچوں کا ہاسٹل ہے آپ کو کھانا ہو تو کھائیے نہیں تو آپ فائو اسٹار ہوٹل میں جا کر کھائیے اور اے سی میں رہیے یہ ان کے الفاظ تھے،
اب مانو کیمپس کے حالات یہ ہے کہ رات سے ہی پولیس یہاں تعینات ہے صبح ہوتے ہی اور پولیس کی ٹیم بلائی جاتی ہے اور طلبہ کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے مگر پھر بھی طلبہ اپنے جوش خروش سے احتجاج درج کرا رہے ہیں پراکٹر کی استعفی کی مانگ کر رہے ہیں،اس وقت اگر دیکھا جائے تو کافی تعداد میں مانو کیمپس میں پولیس تعینات ہیں۔
واضح رہے کہ 24 ستمبر کو ہونے والے طلبہ یونین کے انتخابات بھی منسوخ کردیئے گئے ہیں، طلبہ کا مطالبہ ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں۔