حیدرآباد: 5 جولائی (منصف ٹی وی) المعہد العالی الاسلامی قباء کالونی شاہین نگر حیدرآباد میں گذشتہ روز ایک اہم علمی محاضرہ بہ عنوان "تین نئے فوجداری قوانین اور مسلمانوں و دیگر پر اس کے اثرات" کا انعقاد عمل میں آیا، اس جلسہ کی صدارت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی۔ اس منعقدہ جلسے میں بیرسٹر اسدالدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد وصدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے "تین نئے فوجداری قوانین اور مسلمانوں و دیگر پر اس کے اثرات" پر خطاب بات کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہندوستان میں مودی حکومت کی جانب سے حال ہی میں نافذ العمل تینوں فوج داری قوانین در اصل عام شہری کی پریشانیوں اور محکمہ پولیس کے اختیارات میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تینوں قوانین دستور کے منافی اور بنیادی حقوق کی سخت مخالف ہیں، پولیس کے اختیارات میں اضافہ کرکے عام لوگوں پر ظلم کا ایک نیا باب کھول دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف شقوں کو آسان کرکے اقلیتوں کے خلاف محاذ آرائی کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ مودی حکومت کا یہ کہنا کہ ملک سے انگریزی دور کے فوجداری قوانین کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا گیا اور نئے قوانین کو باضابطہ مرتب کیا گیا ہے حالانکہ ان کا یہ دعوی سراسر غلط ہے۔ کیوں کہ آزادی کے بعد سے متعدد مواقع پر مرکزی حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں حسبِ موقع ترمیم کی جاتی رہی ہے۔ مرکزی حکومت کے علاوہ ریاستوں نے بھی اپنے اپنے اعتبار سے کریمنل لاء میں مختلف مواقع پر تبدیلیاں کرتی رہی ہیں۔ اسی لئے ان قوانین کو انگریزی دور
کے قوانین کہنا بالکل غلط ہوگا۔
انہوں نے نئے نافذالعمل قوانین پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلے کسی بھی شکایت پر پولیس کو فی الفور ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات تھے تاہم اب اس کو تبدیل کرکے ایف آئی آر درج کرنے میں 15دنوں کی مہلت فراہم کی گئی۔ نئے قوانین کے مطابق فوری ایف آئی آر درج نہیں ہوگا۔ کیونکہ پہلے یہ دیکھا جائے گا شکایت کنندہ کی بات پر کیس بنے گا یا نہیں اور پھر اپنے اعتبار سے ایک وقت تک اس پر غور و خوض کے بعد ایف آئی آر درج کرے گا یا پھر اس شکایت کو وہیں پر ختم کردیا جائے گا۔ اس معاملہ میں شکایت کنندگان کو تکالیف کا سامنا ہونے کا قوی امکان ہے۔ اگر کسی کے خلاف کیس درج ہوا تو اس کو پولیس پندرہ دن تک پولیس اسٹیشن میں طلب کرسکتی ہے جب کہ اس مطلوبہ بندے کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ آیا کس معاملہ میں اسے پولیس اسٹیشن طلب کیا جارہا ہے، اس طرح ہنگامی معاملات میں پولیس سے رجوع ہونے میں عوام خطرہ محسوس کرے گی اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ نئے قوانین کے مطابق ایف آئی آر درج نہ ہونے پر جس طرح عدالت سے پہلے رجوع کیا جاتا تھا اب اس طرح عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بیرسٹر اویسی نے اپنے محاضرہ میں کہا کہ ان نئے قوانین میں جو باتیں لائی گئی ہیں اس میں یہ مسئلہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوگیا کہ عام
مقدمات میں بھی اب پولیس 90 دن کی ریمانڈ طلب کرسکتی ہے جبکہ پہلے یہ 15 دنوں کی مدت پر محدود تھا اور اب اس طرح کی مدت میں توسیع پر پولیس کو مزید ڈرانے دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کا موقع مل جائے گا۔
پروگرام کے شروع میں المعہد العالی الاسلامی کے طلبہ نے ملکی سیاست میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے کردار اور ویب سیریز اور نت نئے فلموں کے ذریعہ شرعی قوانین کا استہزاء نیز مسلمانوں کے ساتھ شرانگیزی کے واقعات پر پُرمغز روشنی ڈالی۔ نائب ناظم ادارہ مفتی عمر عابدین مدنی قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ المعہد العالی الاسلامی کا تعارف اور اس کی کارکردگی نیز ادارہ کے امتیازات کو بیان کیا اور فارغین معہد کی ملک بھر میں جاری سرگرمیوں کو کم وقت میں مؤثر انداز میں پیش کیا۔ مفتی اشرف علی ناظم تعلیمات نے بیرسٹر اویسی کے لیے استقبالیہ کلمات کہے۔ اس موقع پر بیرسٹر اسد الدین اویسی کی گلپوشی کرتے ہوئے انہیں تہنیت پیش کی گئی۔ بیرسٹر اویسی کے محاضرہ کے بعد مولانا خالد سیف الله رحمانی ناظم ادارہ کی ایماء پر سوالات و جوابات کا سلسلہ چلا۔ جس میں بیرسٹر اویسی نے طلبہ کو اطمینان بخش جوابات دئیے۔ اس پروگرام میں ادارہ کے اساتذہ طلبہ کے علاوہ شہر کے بعض علماء کرام و باذوق عمائدین بھی شریک رہے۔ مولانا رحمانی کی دعاء پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔