Thursday, November 21, 2024 | 1446 جمادى الأولى 19
National

قافلۂ حسین پر پانی کی بندش اور واقعۂ حضرت عباس کی شہادت

ماہ محرم الحرام کی آمد اپنے ساتھ  میدان کربلا کی یاد کو ساتھ لیکر آتا ہے شہدائے کربلا  نواسۂ رسول،سید الشہداء، امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد دلوں کو تڑپا دیتی ہے اور آنکھوں کو اشک بار کردیتی ہے،میدان کربلا میں اہل بیت اطہار کو اس قدر ستایا گیا جن کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ دلوں کو چاک کر دینے والے واقعات میں سے ایک جب امام حسین کے قافلے پر نہر فرات پر پانی کی بندش لگا دی گئی اور علم بردار کو شہید کر دیا گیا۔ 
ساتویں محرم الحرام بروزمنگل عمر ابن حجاج کو پانچ سوسواروں سمیت نہرفرات پر اس لیے مقرر کر دیا گیا کہ امام حسین کے خیمہ تک پانی نہ پہنچنے پائے پھر مزید احتیاط کے لیے چار ہزار کا لشکر دے کر حجر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر شیث ابن ربعی کو روانہ کیا گیا۔ اور پانی کی بندش کر دی گئی۔
ایمان و شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر فائز حیدر کرار کا لخت جگر عباس علم بردار نے شدید پیاس کے عالم میں علم اٹھایا، لشکر حسینی کا علمبردار،بچوں کی آس، زینب علیہ اسلام کا فخر، شہزادی کونین کی دعا، ام البنین کا لخت جگر عباس علمدار علیہ اسلام نے امام حسین سے اجازت لے کر پانى لانے کے لئے دریائے فرات کى طرف روانہ ہوۓ،
اپنے بہادر اور جانثار بھایئوں کے بعد حضرت عباس میدان جنگ میں جانے کے لیے تشریف لاۓ اس وقت امام حسین کے چہرے پر افسردگی چھا گئی اور آپ نے فرمایا بھائی تم ہمارے لشکر کے علم بردار ھو، اور تم بھی ہم کو چھوڑے جارہے ہو۔ عباس نے کہا مجھہ سے سکینہ اور چھوٹے بچوں کی پیاس نہیں دیکھی جاتی، معصوم سکینہ اپنی چھوٹی سی خشک مشکیزہ اٹھا کر لائ اور چچا کے گلے میں ڈال دی۔ حضرت عباس جب فرات کی طرف روانہ ہوۓ تو یزیدی لشکر میں حضرت عباس کو دیکھ کر ہیبت پھیل گی ۔
‎حضرت عباس  کو دیکھ کر  یزیدی فوجوں میں انتشار پیدا ہو گیا ‎حضرت عباس  فرات کی جانب پیش قدمی کی ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں تازہ دم لشکر دوسری طرف تین دن کا بھوکا پیاسہ غازی علم بردار۔ ‎حضرت عباس  نے فرات پر قبضہ کیا،اور مشکیزہ بھرا، ایک نظر پانی چلو میں لیا اور پھر پھینک دیا، سکینہ کی علی اصغر کی پیاس یاد آئی ۔ مشک بھر کر کے گھوڑے پر سوارہوۓ آگے بڑھنے لگے۔ لشکر یزیذ کو شکت کا یقین ہوگیا - چنانچہ یزیدی فوج سے تیروں کی ‎بارش ہونے لگی پہلے علم بردار کے دایاں ہاتھہ قلم کیا گیا، پھر بایاں ہاتھ علم بردار دانتوں سے مشک پکڑ لی- اور بہادری سے مشک کی حفاظت کرتے ہوۓ تیروں کی بوچھار میں آگے بڑھتے گے یہاں تک کے ایک تیر مشک سکینہ پر لگا اور سارا پانی بہہ گیا- غازی کے جسم میں اس قدر تیر ونیزے لگے کہ اب گھوڑے پر ٹکنا مشکل ہوگیا۔ علم بردار نےامام حسین سے کہا مولا میری لاش خمیہ میں مت لے جانا میں سکینہ سے شرمندہ ہوں امام سے فرمایا کہ آقا میں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے آپکی زیارت کی اب دنیا سے جاتے ہوے بھی آپکی زیارت کرنا چاھتاہوں- ایک آنکھہ میں خون بھرا ہے ۔ ‎اور دوسری میں تیر پیوست ہےامام علی مقام نے فرمایا، اے میرے باوفا بھائی ساری زندگی ھم کو آقا کہہ کر پکارا ہے ایک بار بھائی کہہ دو۔ بالآخر حضرت عباس بھی شہید ہو گۓ۔ 
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو مع شہزادگان و رُفقا تین دن بھوکا پیا سارکھنے کے بعد عاشورا کے روزمیدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ امام عالی مقام نے میدان کربلا میں ایک ایک کرکے اپنے خاندان سمیت 72 جانثار ساتھیوں کو راہ خدا میں لٹادیا لیکن یزید پلید کے ہاتھ پر بیعت نہ کی۔