سپریم کورٹ نے 9 اگست جمعہ کو ممبئی کے ایک کالج کی طرف سے جاری کردہ اس نوٹس پر روک لگا دی ہے، جس میں کالج کے کیمپس میں حجاب، نقاب، برقع، ٹوپی اور دیگر مذہبی چیزیں پہننے پر پابندی عائد کرنے کی بات کہی گئی تھی،
اس نوٹس کے خلاف سائنس ڈگری کورس کے 9 لڑکیوں نے اس بنیاد پر کالج کی ہدایت کو چیلنج کیا تھا کہ یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جس میں انہیں ان کے مذہب پرعمل کرنے سے روکا جا رہا ہے،اور انکے حق راۓ کو چھینا جا رہا ہے۔
طلباء نے پہلے بامبے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا،جس کے بعد درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا،
سپریم کورٹ کی بنچ نے سماعت کے دوران سخت ریمارکس کرتے ہوۓ یہ سوال کیا کہ ! کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ تلک لگانے والے شخص کو کیمپس میں اجازت نہیں دی جائے گی؟ یہ آپ کی ہدایات کا حصہ نہیں ہے؟"
عدالت نے کہا کہ کالج کا فیصلہ خواتین کو بااختیار بنانے کے خلاف کام کررہا ہے آپ خواتین کو یہ بتا کر کس طرح بااختیار بنا رہے ہیں کہ انہیں کیا پہننا ہے؟ آپ کو اچانک اس حقیقت کا کیوں خیال آیا کہ وہ اسے پہن رہی ہیں جبکہ آزادی کے کئی سال گزر چکے ہیں مذہب تو ناموں میں بھی ہوتا ہے، ایسے اصول مت بنائیں،
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ممبئی کے 2 کالجوں میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ممبئی کے نجی کالجوں میں حجاب، نقاب، چوری، ٹوپی پہننے پر پابندی ہٹا دی ہے۔ تاہم کالج میں برقعہ پہننے پر پابندی برقرار رہے گی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 18 نومبر کے بعد ہوگی۔