اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کی جنگ آزادی میں سماج کے ہر فرد نے حصہ لیا،سب نے اس دیش کو آزاد کرانے میں قربانی دی،
مگر اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزوں کی مخالفت کرنے میں پہل مسلمانوں نے کی۔ فرنگیوں کے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتوی کسی اور نے نہیں بلکہ ایک مسلمان علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے دیا جس کی پاداش میں انہیں جلاوطن کی سزا دی گئی ۔
وطن سے محبت نصف ایمان ہے "کا پیغام مسلمانوں نے دیا، "انقلاب زندہ باد کا نعرہ" مسلمانوں نے دیا، "سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے" کا جذبہ مسلمانوں نے دیا،
'گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی' جیسی فکر مسلمانوں نے دی، "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا "جیسا ترانہ مسلمانوں نے دیا، حتی کہ لال قلعہ کی فصیل سے آزادی کی مبارک باد دینے والے شہنائی کے بادشاہ استاد بسم اللہ خان بھی مسلمان تھے۔
ہمارے ملک ہندوستان کوطویل جدوجہد کے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، آزادی کی خاطرمیدان جنگ میں نکل پڑے،بلآخر غیرملکی طاقت گھٹنے ٹیک دیے۔ مگر ہمیں یہ آزادی یوں ہی میسرنہیں ہوئی، نہ جانے کتنے سپہ سالار اس سرزمیں کی مٹی میں سما گۓ۔
جنگِ آزادی میں ٹیپوسلطان کا اہم کردار!
حیدرعلی اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہے،حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے کئی جنگیں لڑئیں،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپو سلطان کی پہلی جنگ ہوئی جس میں انگریزوں کوشکست ہوئی۔
ٹیپوسلطان پہلا وہ شخص تھا جس نے اپنی باریک بینی، دور نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے جہاں جنگ آزادی کے خاطر ٹیپو سلطان نے شہادت کا جام نوش کیا۔
جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف علماء کرام کی خدمات!
1857ء میں شاہ ولی الله اورشاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی اورشاہ اسحاق محدث دہلوی کی محنت رنگ لائی، جہاں 1857ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ ان میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی،مولانافضلِ حق خیرآبادی، سمیت دیگر نامور ہستیاں قابل ذکرہیں۔ غدر کے زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کۓ جس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے،اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا،جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی،تومولانا نے کھل کرکہاکہ اس فتوی کو میں نے ہی مرتب کیا ہے، جسکے سبب انہیں سزا دی گئی۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
انگریزوں کے خلاف بغاوت کی وجہ سے مولانا جعفر کو اٹھارہ سال کی قیدبامشقت کی سزا دی گئی۔ مولاناجعفر اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں: ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں،جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزوں نے علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ان میں ڈال دیاگیا۔
اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیج دیا گیا۔
1857ء کے انقلاب کے بارے میں پنجاب کی انگریزی سرکار نے شروع ہی سے اعلان کردیاتھا کہ بغاوت کا آغاز در اصل ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی طرف سے ہوا ، مسلمانوں کو بہ قول کیو براؤن بغاوت کا محرک سمجھا جاتا تھا اور ہندوؤں کو ان کا آلۂ کار ، سندربن کے انگریز کمشنر نے باضابطہ گورنمنٹ گزٹ میں اعلان کیا کہ جو ملازمتین خالی ہوتی ہیں ، ان پر سوائے ہندوؤں کے کسی کا تقرر نہ کیا جائے ( انقلاب ۱۸۵۷، ص : ۳۵ ) اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا سب سے نمایاں حصہ رہا ہے اور انہوں نے اس میں پیش قدمی بھی کی ہے ، اور چونکہ ہر دور میں مسلمان ہر نئے قدم کے لیے علماء کی طرف دیکھتے رہے ہیں اور ان کے اشارۂ انگشت میں اپنے لیے دین و دنیا کی بھلائی تصور کی ہے ، اس لیے ان کی ہر تحریک کا رشتہ علماء ہی سے جاکر جڑتا ہے۔