Thursday, November 21, 2024 | 1446 جمادى الأولى 19
National

جنگ آزادی کی جد وجہد میں خواتین کا قائدانہ کردار

ہندوستان کی آزادی کا خیال آتے ہی ذہن میں بڑے بڑے مرد رہنماؤں کے نام گردش کرنے لگتے ہیں لیکن بغور مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ خواتین بھی اس جدوجہد میں مردوں سے کم نہیں ہے انہوں نے نہ صرف اپنے شوہروں اور بیٹوں کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کے لیے اکسایہ اور ان کا ہر طرح سے تعاون کیا بلکہ ان میں سے بعض نے خود بھی براہ راست حصہ لیا ۔ ہڑتالوں میں حصہ لیا جلسے جلوس میں شرکت کی جبکہ بعض خواتین نے اپنے تحریروں اور شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی ایسی خواتین میں سرفہرست جھانسی کی رانی لکشمی بھائی کا نام آتا ہے جنہوں نے براہ راست انگریزوں سے لوہا منوایا ان کے شوہر کے انتقال کے بعد انگریزوں نے لاولدی کا بہانہ بنا کر جھانسی کو  اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی لیکن لکشمی بائی نے ان کی شدید مخالفت کی اور حکومت کی کمان اپنے منہ بولے بیٹے کے نام پر خود سنبھال لی ،انگریز فوج نے جھانسی پر حملہ کر دیا رانی لکشمی بائی نے مردانہ وار مقابلہ کیا انہوں نے انگریزوں کی جدید اسلحہ سے لیس اور تعداد میں بھی زیادہ فوج کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا آخر کار وہ انگریز فوج سے  لڑتے ہوئے شہید ہو گئیں ۔جدوجہد آزادی میں ایک اہم نام بیگم حضرت محل کا ہے 1856 عیسوی میں جب انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ پر ریاست اودھ کی سلطنت سے لا پرواہ ہی  برتنے کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا تو حضرت محل نے ہی انگریزوں کی خلاف فوجیوں کی رہنمائی کی اور انگریزوں کو شکست دی، انگریزوں نے بیگم حضرت محل کو صلح کا پیغام بھیجا جسے انہوں نے نا منظور کر دیا انگریزوں نے ان کو طرح طرح کے لالچ دی لیکن وہ جھکنے کو تیار نہ ہوئیں انہوں نے سر جھکا کر عیش و عشرت کی ساتھ زندگی گزارنے پر سادہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی، 
ہندوستان کی اس جدوجہد آزادی میں بعض خواتین نے پردے کے پیچھے مردوں کا ساتھ دیا ان میں سب سے اول ہیں بیگم زینت محل گرچے انہوں نے براہ راست انگریزوں کا مقابلہ نہیں کیا لیکن وہ اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کی حوصلہ افزائی پردے کی پیچھے سے لگاتار کرتی رہیں اور انہیں لڑائی کے لیے آمادہ کرتی رہیں یہاں تک کہ بادشاہ کو کہنا پڑا ہم لڑیں گے بیگم ضرور لڑیں گے آگے ہماری قسمت جو خدا کو منظور ہوگا وہی ہوگا ہم قسم کھاتے ہیں بیگم کی غلامی کی موت نہیں مریں گے  ،آپ بھی تکلیف اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیے۔ بیگم زینت محل نے آخر تک بادشاہ کا ساتھ دیا تکلیفیں اٹھائی پریشانیاں جھیلی یہاں تک کہ جب بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد انہیں جلا وطن کر کے رنگون بھیجا گیا تو انہوں نے بھی جلا وطن کی زندگی پسند کی لیکن انگریزوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا نہ ہی ان سے رحم کی بھیک مانگی 1857 کی تحریک آزادی میں کچھ خواتین نے  جاسوسی کی خدمت انجام دی ایسی خواتین میں ایک نام  نانا صاحب پیشوا کی بیٹی مینا کا بھی ہے 1857 میں بٹھور پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے کے بعد نانا صاحب کو بھٹور چھوڑنا پڑا تب ان کی بیٹی نے نانا صاحب سے کہا میں اپنی حفاظت کرنا خوب جانتی ہوں میں یہاں رہ کر انقلابیوں کو اطلاعات فراہم کرتی رہوں گی آپ میری فکر نہ کریں ایک روز انگریزوں نے محل کو گھیر لیا مینا اپنے کچھ خدمت گاروں کے ساتھ گرفتار کر لی گئی انگریز جنرل نے جب مینا سے نانا صاحب اور ان کے ساتھیوں کے پتے پوچھے اور نہ بتانے پر جلانے کی دھمکی دی تو مینا نے بے خوفی سے کہا میری قربانی ہی میرا سب سے بڑا انعام ہے اور یہ بھی طے ہے کہ میری موت انگریزوں کے زوال کا پیغام ثابت ہوگی جنرل نے مینا کے اس جواب سے مشتعل ہو کر زندہ ہی آگ میں ڈال دیا اس طرح مینا نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔
جاسوسی کے سلسلے میں ایک خاتون کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس کا نام عزیز بانی تھا وہ نہایت حسین اور خوش گلو تھی وہ تاتیا ٹوپے سے ملی اور جنگ آزادی میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تاتیا نے ان کے بیٹے سے مطابقت رکھنے والا کام اس کے سپرد کیا ان کی ہدایت پر عزیز بانی نے کانپور چھاؤنی کے انگریز افسران تک رسائی حاصل کر لی وہ ان کے لیے رقص و سرور اور موسیقی کی محفلیں منعقد کرتی اور جب وہ مدہوش ہو جاتے تو ان سے فوجی راز حاصل کر کے  تاتیا ٹوپے تک پہنچاتی اس موقع پر میدان جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے انگریزوں نے اسے دیکھ لیا آخر کار اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا اور انگریز جنرل کے حکم پر اسے ستون سے باندھ کر زندہ جلا دیا گیا ۔تحریک آزادی کے دوسرے دور میں جن خواتین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں ہی اماں کا نام‌ سنہرے الفاظ میں لکھا جاۓ گا وہ جنگ آزادی کے دو عظیم مجاہدین محمد علی اور شوکت علی کی والد تھیں ۔
انہوں نے نہ صرف اپنے بیٹوں علی برادر ان کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کے لیے اکسایا بلکہ خود بنفس نفیس اس میں حصہ لیا ، علی برادر ان کی قید کے دوران ہی اماں نے ہر طرح سے ان کی دلجوئی کی اور کچھ شرائط پر قید سے ان کی رہائی کے سخت مخالفت کی 1921 میں انہوں نے آل انڈیا خواتین کانفرنس کی صدارت کی ،ان کی تقریروں کی نوٹس لیتے ہوۓ وأسرراۓ نے 1922 میں ان کی گرفتاری کا حکم جاری کیا وہ جدوجہد آزادی میں سخت محنت کے سبب بیمار رہنے لگیں اور نومبر 1924 کو تقریباً 72 سال کی عصر میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ امجدی بیگم اہلیہ محمد علی جوہر آزادی کے اس متوالے مجاہد کی رفیقہ حیات ہیں جس نے کہا تھا جب وطن کا معاملہ ہے تو میں اول ہندوستانی ہوں بعد میں مسلمان ہوں اور اسلام کا معاملہ ہے تو میں پہلے مسلمان اور بعد میں ہندوستانی ہوں ۔ امجدی بیگم مولانا محمّد علی جوہر کے ساتھ ان کی سیاسی زندگی میں شریک رہیں ، انہوں نے ستیہ گرہ اور خلافت تحریک کے لیے ہی اماں کے ساتھ کروڑوں روپے کا چندہ کیا اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر بھی بنیں ، امجدی بیگم ان تمام خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے ان پر ایک بہادر خاتون کے عنوان سے خصوصی مضمون لکھا۔
امجدی بیگم کی طرح تین خواتین اور ہیں جن کا آزادی کی جد وجہد میں قابل ذکر حصہ رہا ہے اور جو مجاہدین آزادی کی شریک حیات تھیں ، ان کے بارے میں مولانا حسرت موہانی نے کہا تھا کہ اگر بیگم حسرت، بیگم آزاد اور کملا نہرونہ ہوتیں تو حسرت کسی اخبار کے ایڈیٹر ہوتے ، مولانا ابوالکلام آزاد الہلال اور البلاغ نکالتے رہتے اور جواہر لال نہرو زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب بیرسٹر ہوتے ، یہ  عورتیں وفا پرست اور ایثار مجسم تھیں ، انہوں نے جان دے دی مگر ہم سے یہ نہیں پوچھا کہ لیلاۓ سیاست کے پرستارو تم جیل جا رہے ہو ہمارا کیا ہوگا کستور گاندھی کے نام سے کون واقف نہیں ہے ملک کی آزادی کے لیے انہوں نے آخری دم تک گا ندھی جی کا ساتھ دیا انہیں دنوں سروجنی نائیڈو نے اپنی تقریروں اور گیتوں کے ذریعے اہل وطن میں آزادی کی لو  جلائے رکھی ان کی شاعری کے باعث ہی انہیں بلبل ہند کا لقب دیا گیا ۔ انہوں نے اپنے گھریلو زندگی  کے آرام کو ترک کر کے گاندھی ،نہرو ،مولانا آزاد ، جیسے رہنماؤں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا ان کی خدمت اور ان کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے 1925 میں انہیں کانگریس کا صدر بنایا گیا وہ پہلی ہندوستانی خاتون تھی جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ۔
وجے لکشمی پنڈت، کملا، نہرو ، زلیخہ بیگم ( اہلیہ مولانا ابوالکلام آزاد) کے نام بھی ان کی خدمات اور قربانیوں کے سبب ہندوستان کی تاریخ آزادی میں سنہرے الفاظ سے لکھے جائیں گے ، ان کے علاوہ دیگر سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جن کے نام بھی اج کوئی نہیں جانتا لیکن انہوں نے اپنی بساط بھر تحریک ازادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں چند ناموں کا ذکر ضروری ہے جن میں خاص طور سے جمنا دیوی ، بینا داس، سبھدراکماری ،  ریحانہ طیب جی ،کلپنا جوشی ، آمنہ قریشی ،بیگم خورشید خواجہ ، حمیدہ طیب جی ، خدیجہ بیگم ، سیتا دیوی ، سلطانہ حیات انصاری ، نور النساء ، عنایت خان ،  زبیدہ بیگم ، فاطمہ اسماعیل،  سشیلہ دیوی وغیرہ قبل ذکر ہیں ۔
تحریک آزادی میں خواتین کے رول کے بارے میں لکھتے ہوئے اگر ارونا آصف کا نام نہ لیا تو نا انصافی  ہوگی وہ ایک زبردست باہمت خواتین تھی 1942 میں جب کانگریس کے تمام بڑے رہنماؤں کو قید کر لیا گیا تھا تو یہ ارونا ہی تھی جنہوں نے آزادی کی مشعل کو جلائے رکھا اور تحریک آزادی  کا جھنڈا بلند کیے رکھا۔