Thursday, November 21, 2024 | 1446 جمادى الأولى 19
Education

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنا ایک سوچارواں یوم تاسیس جوش وخروش کے ساتھ منایا

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنا ایک سوچارواں یوم تاسیس جوش وخروش کے ساتھ منایا،
اس مناسبت سے یونیورسٹی میں متعدد پروگرام بھی منعقد ہوئے
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے آج اپنا ایک سو چارواں یوم تاسیس عمدہ پروگراموں کے ساتھ منایا جن میں نئے تقرر شدہ شیخ الجامعہ،پروفیسر مظہر آصف،مہمان خصوصی ڈاکٹر اشوک سیٹھ(پدم بھوشن) چیئر مین فورٹس اسکورٹ ہرٹ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی،اساتذہ،طلبا، یونیورسٹی کا غیر تدریسی عملہ اور جامعہ برادری کے دوسرے اراکین شامل ہوئے۔
ڈاکٹر ایم۔اے انصاری آڈیٹوریم کے سبزہ زار پرشیخ الجامعہ اور مہمان خصوصی کی خدمت میں جامعہ این سی سی کیڈٹ کی جانب سے گارڈ آف آنر کے ساتھ یوم تاسیس کا پروگرام شروع ہوا۔ گارڈ آف آنر کے بعد انھوں نے جامعہ کے پرچم کشائی اور جامعہ کی میوزک ٹیم کی جانب سے جامعہ کا پرچم نغمہ گایا۔
 جامعہ کا پرچم کی نغمہ سرائی کے بعد ڈاکٹر ایم۔اے۔انصاری آڈیٹوریم میں پروگرام ہوئے۔یونیورسٹی کی ترانہ ٹیم نے جامعہ ترانہ،جامعہ رقص کناں اور دوسرے گیتوں سے حاضرین کو مسحور کردیا۔پروفیسر سیمی فرحت بصیر،ڈی ایس ڈبلیو،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مہمانان کا استقبال کیا اور حاضرین کے سامنے جامعہ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔
 شیخ الجامعہ،پروفیسر مظہر آصف جو فارسی زبان وادب کے ماہر ہیں انھوں نے اپنی تقریر شعر سے شروع کی جس کا زوردار تالیوں سے خیر مقدم کیا گیا۔انھوں نے اس بات پر زور دیاکہ جامعہ کے قیام کا مقصد نئی تعلیم فراہم کرنا تھا اور ابھی تک یونیورسٹی اپنا یہ ہدف اچھی طرح حاصل کیا ہے۔جامعہ جیسے تاریخی ادارے کے قیام اور اس کو پروان چڑھانے میں جامعہ کے نابغہ روزگار بنیاد گزاروں کے رول اور ان کی قربانیوں کو انھوں نے اجاگر کیا۔انھوں نے عہد کیا کہ وہ یہاں کے اساتذہ،غیر تدریسی عملہ اور طلبا کے تعاون اور مدد سے جامعہ کو نئی اونچائیوں تک لے جائیں گے۔
شیخ الجامعہ نے کہاکہ اس کے تین اجز ایعنی تعلیم، معلومات اور تہذیب ہیں اور بغیر تہذیب کے ہم اپنا نصب العین حاصل نہیں کرسکتے اور یہ کہ علم اور تعلیم کے درمیان معمولی فرق ہے جسے انھوں نے ایک مثال سے واضح کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے تہذیب و تربیت ناگزیر ہے۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر اشوک سیٹھ نے اپنی جذباتی تقریر میں کہاکہ وہ جامعہ میں صرف ایک ماہر امراض قلب کی حیثیت سے شریک نہیں ہوئے بلکہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم کی حیثیت سے بھی شریک ہیں کیوں کہ انھیں جامعہ سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں غیر معمولی رول ادا کرنے والے بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار کرنے کے لیے انھوں نے جامعہ کی ستائش کی۔ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے انھوں نے کردار سازی پر زور دیا۔آڈیٹوریم میں منعقدہ پروگراموں کا اختتام قومی ترانہ کی نغمہ سرائی اور قائم مقام مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ جناب نسیم حیدر کے اظہار تشکر کے ساتھ ہوا۔
 آڈیٹوریم میں پروگرام کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین ؒکتب خانے کی جانب سے ’جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تعمیر:ڈاکٹر ذاکر حسین کی حیات و خدمات‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک نمائش کا افتتاح کیا۔ یونیورسٹی کے ڈینز،صدور، ڈائریکٹر اور پرووسٹ کی موجودگی میں نمائش کاافتتاح عمل میں آیا۔ نمائش میں جامعہ کے تشکیلی دور، مالی اور سیاسی بحران کے چیلینجز اور جامعہ کو بند ہونے سے روکنے کے سلسلے میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی قائدانہ بصیرت کو اجاگر کیا گیاتھا۔علاوہ ازیں نمائش میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر  ان کی مدت کار، گورنر بہار، نائب صدرجمہوریہ ہند، اور بعد میں صدر جمہوریہ ہند سمیت ڈاکٹر حسین کی زندگی کی زندگی کے مختلف ابعاد و جہات کو پیش کیا۔تصویروں کے بیانیے سے نمائش میں کئی نایاب کتب،اخبارات کے تراشے اور مختلف اہل علم و دانش کے  مقالات اور مضامین بھی اس میں شامل کیے گئے تھے۔
 بعد میں شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف نے سائنس نمائش کا بھی افتتاح کیا جو سید عابد حسین سینئر سکینڈری اسکول،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی جدت پسنداور تخلیقی صلاحیت کو آشکار کر رہی تھی۔شیخ الجامعہ نے سائنس اور آموزش کی روح کے فروغ اور اسے ترقی دینے کے سلسلے میں  اسکول کے خلوص اور محنت کی ستائش کی۔اس موقع پر جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول میں متعددتہذیبی و ثقافتی پروگرام منعقد ہوئے جن میں جامعہ کے پانچوں اسکولوں کے طلبا نے حصہ لیا اور اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔جامعہ ہمدرد یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ پروفیسر افشار عالم پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔
یوم تاسیس کی تقریبات کے حصے کے طورپر مختلف شعبہ جات اورمراکز میں بھی متعدد پروگرام ہوئے تین روزہ یوم تاسیس ستائیس اکتوبر کو شروع ہوا تھا جو آج جامعہ پرچم کو نگوں کرکے اور قومی ترانہ کی نغمہ سرائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔یوم تاسیس کے موقع پر یونیورسٹی کی تمام اہم عمارتیں اور گیٹ برقی قمقموں اور پھولوں سے آراستہ تھے اور پوری یونیورسٹی نور میں نہائی ہوئی معلوم ہورہی تھی.