اندرا گاندھی اندورا اسٹیڈیم میں منعقدہ ہندوستانی آئین تحفظ کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے لاکھوں توحید پرستوں سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ملک میں علمائے کرام، مدارس اور جمعیۃ علماء ہند کے کردار کی تعریف کی۔
جدوجہد آزادی کے تاریخی اور مثالی کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ملک کی آزادی مسلمانوں کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ 1832 اور 1857 میں علمائے کرام کی جدوجہد کے بعد برطانیہ اور ہندوستان کے تعلقات میں جو تناؤ پیدا ہوا تھا اسے دور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
جمعیت علماۓ ہند جس نے کانگریس کو ملک کی جدوجہد آزادی کے لیے اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کیا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس جنگ میں مسلمانوں اور ہمارے علماء کو بہت نقصان اٹھانا پڑا، یہاں تک کہ 1857 کی جنگ میں صرف دہلی میں 35 ہزار مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا اور ان کی لاشوں کو درختوں پر لٹکایا گیا، لیکن ہمارے عظیم لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔
انہوں نے آج کی سیاسی و سماجی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم انگریزوں کے ظلم و بربریت کے سامنے نہیں جھکے تو اب کوئی طاقت ہمیں جھکنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ مسلمان صرف اللہ کے سامنے سر جھکاتا ہے،
انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ قوتوں کو موجودہ وقت میں ملک میں آگ لگانے کی مکمل آزادی ملی ہوئی ہے۔
مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، مختلف مذہبی مسائل کو ہوا دے کر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، ایسے میں جمعیت علمائے ہند اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام سے لے کر اب تک انہی اصولوں پر عمل پیرا ہے جو اس کے بزرگوں کے اصول تھے اور یہی اصول محبت، اتحاد اور یکجہتی کا اصول ہے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ہم کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں۔ تاہم ملک کی یکجہتی اور سالمیت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور یہ اتحاد و سالمیت اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب ملک کی موجودہ صورتحال پر ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں۔
ملک کے موجودہ حال پر فکر ظاہر کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ آج سب سے بڑا خطرہ سیکولر آئین کو ہے جس نے ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیئے ہیں۔
اس آئین میں ملک کی اقلیتوں کو خصوصی حقوق دیے گئے ہیں لیکن اب ان حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مولانا مدنی نے ایک بار پھر کہا کہ ملک کا سیکولر آئین جمعیۃ علماء ہند کا تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیکولر آئین نے ہر شہری کو مذہبی آزادی، اپنی پسند کے مذہب کو اپنانے اور اس کی تبلیغ کا حق دیا ہے۔
اس آئین نے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی مکمل آزادی دی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی کہاں ہے؟ کبھی مدارس کو بند کرنے کی سازش کی جاتی ہے تو کبھی یکساں سول کوڈ لانے کی سوچ چھوڑ دی جاتی ہے۔ وقف ترمیمی بل آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے ذریعے ہماری وقف املاک کو ہتھیانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، اس قسم کی جرأت اور کوشش آئین کے رہنما اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ آئین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
بہت اہم ہے، گزشتہ چند سالوں سے ملک میں جو یک طرفہ سیاست چل رہی ہے، اس نے آئین کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حالانکہ آئین پر حلف لیا جاتا ہے، اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور آئینی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک مکمل طور پر فسطائیت کی لپیٹ میں ہے، ایسی صورتحال میں یہ ذمہ داری صرف ہماری نہیں بلکہ ملک کے ان تمام شہریوں کی ہے جو ملک کے آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ کہ وہ آئین کو بچانے کے لیے آگے آئیں کیونکہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہو گئی تو جمہوریت بھی نہیں بچ سکے گی۔
آسام شہریت کیس، بلڈوزر ایکشن، مدارس کے خلاف کارروائی اور ہلدوانی فسادات جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے ان پر سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلوں کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ بے بس اور لاچار لوگوں کی امید بن رہی ہے، انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ بھی ان کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست عناصر جمعیۃ علماء ہند پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہیں، یہ سراسر بے بنیاد اور بے بنیاد الزام ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کسی دہشت گرد کو پناہ نہیں دیتی بلکہ ان بے بس لوگوں کو قانونی مدد فراہم کرتی ہے جنہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔
وقف ترمیمی بل کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ وقف ہمارے اسلاف کی میراث اور اللہ کی ملکیت ہے۔ لیکن اب ہم اس ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرتے ہیں جو لایا جا رہا ہے۔ ہم ایسے کسی قانون کو قبول نہیں کر سکتے جس سے وقف کی حیثیت اور وقف کرنے والے کی خواہشات میں تبدیلی آئے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ صرف ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف کیوں ہو رہا ہے؟ کیا انہیں مذہب کی بنیاد پر جینے کا حق نہیں؟ انہوں نے خبردار کیا کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنا ملک کو کمزور کرنا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔